Written by: Advocate Afshan Saleem
published by advocateonline.pk
جب دو یا دو سے زائد افراد کسی ایسی بات /عمل کے کرنےیا نہ کرنے کا ایجاب و قبول کرتے ہیں تو اس کو عہد کرنا یا معاہدہ کرنا کہا جاتا ہے اور اگر اس قسم کے کسی معاہدہ میں کسی رقم کا لین دین بھی شامل ہو تو یہ مزید اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔یہ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ اس کے لیئے قرآن مجید میں باقاعدہ تفصیل کے ساتھ احکامات موجود ہیں لیکن عموماً اس عمل کو اپنے اوپر شک اور برا مانتے ہوئے کسی کے ساتھ مالی لین دین کا معاملہ کرتے ہوئے ان واضح احکامات سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں اور بعد میں عدالتوں میں مقدمات کے دوران پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں حا لانکہ اگر نیت صاف ہو تو فریقین میں کسی کو بھی اس طرح کے معاملات کو تحریری شکل دینے میں پس وپیش نہیں کرنا چاہیے لیکن صد افسوس کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کہ ایسے بہت سے احکامات کو عمل میں نہیں لاتے جو کہ ہمارے لیئے سراسر خیر کا باعث ہیں۔
لہذا اس حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔
(سورہ البقرہ۔ آیت 282)
What is Contract?
معاہدہ کیا ہے؟
معاہدہ / عہد کرنے سے مراد ایسی بات/عمل کا اقرار کرنا کہ جو دو یا دو سے زیادہ فریقین مستقبل میں کرنے یا نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ معاہدہ کرنے سے کچھ حقوق و فرائض جنم لیتے ہیں جنھیں فریقین قانون کے ذریعے بذریعہ عدالت نافذ کروا سکتے ہیں ۔ معاہدات کو قانونی تحفظ مندرجہ ذیل قوانین کے تحت حاصل ہے
2. The Specific Relief Act 1877
معاہدہ زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی۔ دونوں قسم کے معاہدات میں دو گواہوں کا موجود ہونا لازمی ہے۔
Who Can Contract?
معاہدہ کون کر سکتا ہے؟
ہر وہ شخص جو کہ عاقل اور بالغ ہے ، اور جس پر کسی قانون یا فیصلے کے تحت معاہدہ کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے، معاہدہ کرنے کا اہل ہے۔ نا بالغ افراد اپنے ولی یا سرپرست کے ذریعے معاہدہ کر سکتے ہیں۔
Essentials of a Contract
معاہدہ کے لازمی عناصر
ایک معاہدہ اسی وقت قانونی کہلائے گا جس میں مندرجہ ذیل عناصر موجود ہوں اور ایسے ہی معاہدےکو عدالت کے ذریعے نافذ کروایا جا سکے گا؛
۔ فریقین معاہدہ کرنے کےاہل ہوں۔
۔ معاہدہ کرتے ہوئے فریقین، ہر قسم کے دباؤ، جبر، زبردستی، دھوکہ دہی اور فریب سے آزاد ہوں اور اپنے پورے ہوش و حواس میں معاہدہ کرنے کا اقرار کریں۔
۔ معاہدہ کا متن ، مندرجات اور مقصد مکمل طور پر قانونی ہوں اور قانون کے تحت نافذ کیے جا سکتے ہوں۔
۔ معاہدہ میں قانونی زرِبدل موجود ہو۔
۔ معاہدہ میں فریقین پر کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہوں۔
۔ معاہدہ زبانی ہو یا تحریری ، ایسےدو گواہوں کی موجودگی لازمی ہے، جو اس معاہدے کے متن سےمتعلق گواہی دے سکیں ۔ اسکے لیئے گواہوں کا بھی عاقل اور بالغ ہونا لازمی ہے ۔ گواہ بھی معاہدے کے مندرجات کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ہوں۔
اگر کوئی معاہدہ مندرجہ بالا تمام نکات پر پورااترتا ہے تو وہ مکمل معاہدہ کہلائے گا اور اسے قانون کے تحت پورا تحفظ حاصل ہوگا۔ اگر فریقین میں کوئی بھی معاہدہ مکمل نہ کرے تو عدالت میں متاثرہ فریق کو مخصوص ریلیف ایکٹ 1877 کے تحت داد رسی حاصل ہے اور اگر اس کا کوئی نقصان ہوا ہو تو اسے ہرجانہ بھی دِلوایا جائے گا۔ لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ معاہدہ قانونی تقاضوں کو پورا کرتا ہو اورعدالت میں معاہدہ کی قانونی حیثیت کو ثابت کرنے میں لمبے عرصے تک تگ و دو نہ کرنی پڑے۔
ضروری ہے کہ ہر بالغ اور عاقل شخص ان تمام جزئیات سے واقف ہو تا کہ کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ عدالتیں نکاح نامہ کو بھی ایک قانونی معاہدہ تسلیم کرتی ہیں اور اس میں موجود تمام شرائط کو قوانین کے ذریعے نافذ بھی کرواتی ہیں لیکن ان مندرجات کا بھی مکمل طور سے قانونی ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی غیر قانونی شرط کو عدالت کےی بھی غیر قانونی شرط کو عدالتےذریعے نافذ نہیں کروایا جا سکتا۔